جبری گمشدگیاں یا افراد کا لاپتہ ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ نہایت سنگین معاملہ ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں نہ تو کوئی ادارہ ہے جو اس معاملے کو سنگین نوعیت کا معاملہ سمجھتا ہے اور نہ ہی حکومت سمجھتی ہے کہ اس سلسلہ میں اس کی کوئی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کوئی مؤثر کارروائی کرے اور اگر کسی قسم کی کوئی قانون سازی کرنا ہے تو وہ وقت ضائع کیے بغیر قانون سازی کرے۔
کسی گھر کا کوئی فرد اگر مرجائے تو لواحقین کو آخرکار صبر آجایاکرتا ہے لیکن جس گھر کا کوئی فرد اٹھالیاجائے، گم شدہ ہوجائے یا غائب کردیا جائے تواس کو کیسے چین نصیب ہو سکتا ہے کہ وہ کس حال میں ہے، کہاں ہے اور کس کی گرفت میں ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے میں بہت پراسرار طریقے سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح کی کارروائی کیلئے عموماً ذاتی گاڑیاں استعمال میں لائی جاتی ہیں، لباس بھی سرکاری نہیں ہوتے اور جن افراد کو اٹھالیاجاتا ہے ان کے لواحقین کو گرفتاری سے قبل یا گرفتاری کے بعد کسی قسم کی کوئی اطلاع بھی نہیں دی جاتی کہ ان کے گھرکا فرد کن کی ’’محافظت‘‘ میں ہے جس سے کسی بھی فردوبشر کو اس بات کا علم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان کا لخت جگر، بھائی، شوہر یا بیٹا کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔
جب قانون نافذ کرنے والے اس قسم کی واردات چوروں اور اغواکاروں کی طرح کرتے ہیں تو جو واقعی چور یا اغوا کار ہوتے ہونگے وہ بھی اس سب کا فائدہ اٹھاکر کیا کچھ نہیں کرلیتے ہونگے اور دیکھنے والے یہی سمجھ کر خاموش رہ جاتے ہونگے کہ ایساکرنے والے ’’قانون کے محافظ‘‘ ہی ہونگے۔ یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس قسم کی کارروائیاں یا وارداتیں جرائم پیشہ لوگ ہی کرتے ہونگے تب بھی اس قسم کی مجرمانہ کارروائیوں کی روک تھام اور مجرموں تک پہنچ کر اغواشدہ افراد کی بازیابی بھی تو آخر قانون نافذ کرنے والوں کا ہی کام ہوتا ہے۔
ان سب سے بڑھ کر قابل تشویش بات یہ ہے کہ زیادہ تر ایسے افراد مردہ حالت میں کسی ندی، نالے، جھاڑیوں یا سرد خانوں سے مل جاتے ہیں۔ اٹھائے جانے کے بعد مردہ حالت میں مل جانا کچھ اتنے معمول کی بات ہو گئی ہے کہ جیسے یہ کوئی قابل گرفت جرم ہی نہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو دنیا بہت سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ چنانچہ پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے میں پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ بی بی سی کو جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے بارے میں دیے گئے انٹرویو میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے لوگوں کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان نے اس بارے میں بین الاقومی معاہدوں کی توثیق کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ’’قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے ) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے‘‘۔لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے حکومتوں کی طرف سے تعاون کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ حکومتیں تعاون تو کرتی ہیں لیکن سب لوگ شائد نہیں کرتے۔’’یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارے لوگ تعاون کرتے ہیں حکومت کے اندر؟ کیا وہ لوگ تعاون کرتے ہیں جو شائد ذمہ دار ہوں (گمشدگیوں کے) یا باغی (روگ) عناصر ہوں، سارے تو ایسے نہیں ہیں۔‘‘ اندزاہ لگائیں کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ جسٹس چوہان کیا فرما رہے ہیں ’’قانون کی عدم موجودگی کے باعث گمشدہ افراد کے مقدمات کی تفتیش کرنے میں ان کا ادارہ بعض اوقات بے بس ہو جاتا ہے۔‘‘ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے ) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان مزید فرماتے ہیں کہ ’’جب تک گمشدہ فرد الزام علیہ (ایجنسیوں) کے ہاں سے برآمد نہیں ہو گا یا وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تو ہم تو بے بس ہیں‘‘۔ اس سوال پر کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جب تک ایجنسیاں، جن پر الزام ہے کہ انھوں نے کسی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے، انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں تو یہ ادارہ کچھ نہیں کر سکے گا، جسٹس چوہان نے کہا کہ یہ تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے۔’’کچھ تو ہم کر سکتے ہیں۔ جیسے دباو ڈال سکتے ہیں، شور مچا سکتے ہیں اور ایجنسیوں کو بلا بھی لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے کچھ حاصل ہو جائے‘‘۔
اندازہ لگایئے کہ اس جملے یا اس جواب میں کتنی بے بسی کا اظہار ہو رہا ہے یعنی کسی بھی حکومت کی زیادہ سے زیادہ کارروائی بس اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ جلسے کرے، جلوس نکالے، چیخے چلائے اور سراپااحتجاج بن جائے اور اگر اس سے بھی آگے قدم اٹھائے تو وہ یہ کہ کسی ادارے کے ذمہ دار فرد کو بلاکر اس سے ہاتھ جوڑ کر کہے کہ خداکیلئے سچ سچ بتادو اور اگر وہ انکار کردے تو معاملہ اللہ پر چھوڑکر خاموشی اختیار کرلے جو کہ اب تک ہوتا چلا آیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر ایجنسیاں جبری گمشدہ افراد کے بارے میں رضا کارانہ معلومات نہیں دیتیں تو ان کا ادارہ کچھ نہیں کر سکتا، جسٹس چوہان نے اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کیا کہا ذرا ملاحظہ کیجئے ’’بہت حد تک آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اگر ایجنسیاں رضا کارانہ طور پر ہمیں یہ نہ بتائیں کہ کوئی گمشدہ شخص ان کے پاس موجود ہے تو ہمارے پاس تو کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے ہم یہ معلوم کر سکیں کہ یہ فرد کہاں ہے‘‘۔ اس معاملے میں پولیس کے کردار کے بارے میں ایک سوال پر جسٹس چوہان نے کہا کہ پولیس اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ کر سکے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تو پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا معاملہ ہو گیا تو جسٹس چوہاں نے کہا کہ کچھ ایسا ہی ہے نیز یہ کہ ’’میں اس سے انکار نہیں کروں گا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تو ہے۔ لیکن یہیں پر قانون کا معاملہ آجاتا ہے۔ اگر قانون میں اختیار اور طاقت دی جائے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں‘‘۔ گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس بارے میں نئے قوانین بنا ئے اور ایجنسیوں اور پولیس کو ان قوانین کے دائرے میں لائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔’’اس (قانون نہ ہونے) کی وجہ سے ہم حکومت کے مرہون منت ہیں کیونکہ ہمارے پاس اپنی تو کوئی ایجنسی نہیں ہے جس سے ہم ڈھونڈھ سکیں کہ گمشدہ فرد کہاں ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ وہ حکومت کو تجویز دے چکے ہیں کہ اس معاملے پر قانون سازی کی جائے لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان میں کسی بھی فرد کو اٹھالیا جانا، اس کو پاکستان کی کسی بھی عدالت میں پیش نہ کرنا، اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلانا، اس پر کوئی جرم ثابت نہ کرنا اتنا عام ہو گیا ہے کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی محلہ ایسا رہ گیا ہو جہاں سے کوئی فرد اٹھایا نہیں گیاہو۔ جو فرد اٹھالیا جاتا ہے وہ یا تو ملتا ہی نہیں یا پھر مردہ حالت میں ملتا ہے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں نہایت غیر معمولی اور قابل گرفت بات ہے، ممکن ہے کہ ایسا کرنے والے یا ایساکرنے والا کوئی ادارہ دنیا کے کسی قانون کی گرفت میں نہیں آسکے لیکن وہ اللہ کے یہاں کسی بھی طرح گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔
دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ شدت سے ہوتا ہو لیکن کسی ملک میں کوئی غلط یا گمراہ کن کام ہمارے لئے ’’جائز‘‘ کا جواز نہیں بن سکتا اور اس صورت میں جبکہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو اور اس کا نام بھی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہو یہ بات کہیں سے بھی قابل ستائش اور لائق تحسین ہو ہی نہیں سکتی اس لئے کہ اسلام جان لینا تو در کنار کسی کو حبس بے جا تک میں رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ہماری عدالتوں کا طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے اور عام طور پر بڑے بڑے سنگین جرائم میں ملوث افراد قانونی پیچیدگیوں کے سبب عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی ادارہ از خود خود مختار بن کر کسی کو سفرآخرت پر روانہ کردے۔ نظام کو تبدیل کیا جائے، قانونی نوک پلک کو درست کیا جائے لیکن ان سب باتوں کو جواز بناکر قتل کردینے کا لائسنس حاصل کرلینا ملک کی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے جو ادارے ایسا کر رہے ہیں وہ اس قسم کی ہر کارروائی سے گریز کرتے ہوئے وہی کچھ کریں گے جس کی قانون اجازت دیتاہے۔
اہم بلاگز
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
فداک امی وابی یا رسول اﷲ ﷺ
میرے ماں باپ آپؐ پر قربان اے اﷲ کے رسول ﷺ!!!
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ بات کہاں سے شروع کروں، اتنی عظیم ہستی کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے بار بار قلم کو اپنی بے مائیگی کا احساس پکڑ لیتا ہے، مگر کیا کروں کہ آئے دن دل تڑپتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ دنیا ہمارے نبیﷺ کی ذاتِ اقدس پر حملے کر کر کے ہمارے ایمان کی کمزوری اور طاقت کا اندازہ لگاتی ہے، ہماری نیند ، بے ہوشی اور موت کا معائنہ کرتی ہے، کبھی تقریر، کبھی تحریر اور کبھی ان دونوں سے ہٹ کر مگر برق رفتار اور کثیر الاثر الیکٹرانک میڈیا کا ہتھیار!!! ایک جانب امت کو نازیبا الفاظ، خاکوں، فلموں کے ذریعے اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے تو دوسری جانب آزادیء اظہارکے عالمی دو غلے رویے کی کند چھری سے اس بے بس امت کو ذبح کیا جاتا ہے۔
شاید یہ گستاخانِ رسول ﷺ یہ نہیں جانتے کہ پوری امت کی تاریخ میں انکا انجام ذلت اور رسوائی ہی ہوا ہے جب کہ میرے نبی محترم ﷺ کے لئے اﷲ کا اعلان ہے : ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘۔
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا یہ بھی امتیاز ہے کہ آپؐ پر فدا ہونے والے ابتدائے اسلام ہی سے سر فروشی کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں، اسلام کے پہلے شہید حارثؓ بن ابی ہالہ نے حضور اکرمﷺ کو بچاتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آپ ؐ کو کفار کے حملے سے بچایا، اور وہ آپ ؐ کا دفاع کرتے ہوئے فرما رہے تھے:’’اتقتلون رجلًا ان یقول ربی اﷲ‘‘۔۔۔۔(سورۃ المومن، آیۃ۲۸)۔
کفر واسلام کی پہلی جنگ غزوہء بدر میں دو بچے کفر کے ایک سردار کی تلاش میں ہیں، انہوں نے اسے دیکھا نہیں، مگر اس کے قتل کا عزم لئے بڑے اصرار کے ساتھ اجازت لے کر میدانِ جہاد میں اترے ہے، ایک صحابی سے ابو جہل کا پوچھتے ہیں، اور اپنا ارادہ بھی بیان کر دیتے ہیں، وہ اس عزم کا سبب پوچھتے ہیں تو معاذؓ اور معوذؓ کا جواب ہے: ’’کان یوذی رسول اﷲ ﷺ‘‘، یعنی ابو جہل رسول اﷲ ﷺ کو مکہ میں ایذا دیا کرتا تھا، اس لئے وہ اسکے بدلے اسے قتل کرنا چاہتے ہیں، اور یہ اﷲ کی قدرت ہے کہ وہ اس سورما کو ان بچوں کے ہاتھوں ذلت سے قتل کرواتا ہے۔
رسالت مآب حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو انکے چچا زاد اور ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے اپنے باپ کے کہنے پر آپؐ کو اذیت دینے کے لئے برا بھلا کہا اورآپکی بیٹی کو طلاق دے دی، رسول اﷲ ﷺ نے اسے بددعا دی: ’’اللہم سلّط علیہ کلباً من کلابک‘‘، (اے اﷲ اس پر اپنا ایک کتا مسلط کر دے)۔ عتیبہ شام کے سفر پر تھا جب اس نے رات کو پڑاؤ ڈالا تو اسے ایک شیر کی دھاڑ سنائی دی، اس کا رواں رواں کانپ اٹھا، ساتھیوں نے اسے تسلی دی مگر اسے یقین تھا کہ محمد (ﷺ) کی بددعا سے وہ بچ نہ پائے گا، انہوں نے اس کے...
آئیے بد دعا کریں۔
سیلانی کے قلم سے
احسان اللہ اور حبیب اللہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی وہ بار بار کمرے میں جا کر کھونٹی سے لٹکے ہوئے بے داغ سفید لباس کو دیکھتے اور چھ گز کی پشتون دستار کو چھو کران لمحات کی مسرت محسوس کرنے لگتے جب ان کانام لاؤڈ اسپیکر پر پکارا جاتا اور بھرے مدرسے میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے استاد انہیں سینے سے لگا کر ان کی پیشانی کو بوسہ دے کر ان کے لئے دعا کرتے اور دستار باندھ دی جاتی ۔۔۔۔احسان اللہ اور حبیب اللہ سرخ وسپید رنگت اور چمکدار آنکھوں والے ویسے ہی خوبصورت بچے تھے جیسے عموماً افغان بچے ہوتے ہیں،وہ ’’طالب ‘‘تھے اس لئے ان کے سروں پر عموماً ٹوپی اور کاندھے پر بڑا سا عربی رومال ہوتا تھا۔ یہ عربی رومال بیک وقت جائے نماز کا کام بھی دیتا ہے اور وضو کے بعد تو لیہ کا بھی ،یہ مدرسے کے بعد بستہ بھی بن جاتا ہے ۔یہ ٹوپی ،رومال اورسینے سے لگا قرآن مجیدجاگتے میں ان کے ساتھ ساتھ رہتے تھے ۔یہ دونوں بھائی چھوٹے سے تھے، جب ان کی قرآن پاک سے دوستی ہوئی ،انہیں یاد تھا جب انہیں دشت ارچی کے مدرسہ جامعہ ہاشمیہ میں داخل کرایاگیا تب انہیں ٹھیک سے ٹوپی بھی لگانی نہیں آتی تھی ،انہیں ان کا والد لے کر آیا تھا۔استاد نے ان سے ان کا نام پوچھا،رجسٹر میں اندراج کیااوروہ باقاعدہ طالب ہو گئے۔ انہیں مدرسے میں ناظرہ کی جماعت میں بھیج دیاگیا۔ یہاں ان کی عمر کے بہت سارے بچے لہک لہک کر قرآن پڑھ رہے تھے۔مولوی صاحب سامنے بید رکھے آنکھیں موندے مراقبے کی سی کیفیت میں بیٹھے تھے۔یہ بھی ان بچوں میں شامل ہوگئے ۔یہ ان کی جماعت تھی جہاں انہوں نے الف ،با ،تا سیکھا اور پھر یہ سیکھتے اورپڑھتے چلے گئے ۔تجوید کے بعد انہوں نے قرآن مجید کا حفظ شروع کیا۔استاد جی بتاتے تھے کہ یہ کتاب خود کسی معجزے سے کم نہیں کہ عرب سے عجم تک بدلتی دنیا میں کوئی اس کا ایک نکتہ تک نہیں بدل سکا ہے۔ وہ طلباء کو بتاتے کہ قرآن پاک حفظ کرنے کی بڑی فضیلت ہے آخرت میں حفاظ کی پیشانیاں چمک رہی ہوں گی ،ایک حافظ ستر بندوں کو جنت میں لے کر جائے گا۔۔۔احسان اللہ یہ ساری باتیں بڑے غور سے سنتا اور موقع ملتے ہیں آئینے میں اپنی پیشانی پر نظریں جما کر سوچنے لگتا چمکتی روشن پیشانی کے ساتھ وہ کیسا لگے گا ،اس نے تو ایک فہرست بھی بنانی شروع کر دی تھی۔ اس فہرست میں وہ لوگ تھے جن کی اللہ میاں سے سفارش کرکے جنت میں ساتھ لے جانا تھا۔ دونوں بھائی ہوشیار اور ذہین طالب علم تھے۔ قرآن ان کے لئے آسان ہوتا چلا گیا۔ ان کے سینے میں آسانی سے یہ نور سماتا چلا گیا اور پھر وہ دن بھی آگیا جب وہ حافظ احسان اللہ اور حافظ حبیب اللہ ہو گئے۔ انہوں نے قرآن پاک سے دوستی کی تھی۔ قرآن نے بھی ان دوستی نبھائی اور ان کے سینوں میں محفوظ ہوگیا۔استاد جی انہیں کھڑاکرتے اور جہاں...
آہ۔۔۔حافظ قرآن بچے۔
ایک سو ایک حافظ قرآن بچے۔
رسول اللہ اور رسول خدا کے مہمان بچے۔۔۔
معصوم چہرے مہکتی کلیاں اور دین کی شان بچے۔۔۔
کٹے بدن۔۔۔بکھرے اعضاء۔۔۔خون میں لت پت۔۔۔انسانی گوشت کے لوتھڑوں کا انبار
ایک سو ایک گھرانوں اور سینکڑوں خاندانوں پر کل کا دن قیامت بن کر بیت گیا۔۔۔
ملالہ کی ایک گولی پر آسمان سر پر اٹھانے والے نیشنل انٹرنیشنل میڈیا کی بین الاقوامی میڈیائی طوائفیں چپ ہیں۔۔۔
انسانیت کی پھکی بیچنے والے گونگے شیطان خاموش ھیں۔۔۔
بچوں کے حقوق پر آہ و فغاں کرنے والے دجالی وظیفہ خوار گنگ ہیں۔۔۔
ایک قاری کی غلطی سے ایک۔۔۔قتل خطا۔۔۔ ھوجائے۔۔۔
تو ان کلاب الدجال کی ٹاوں ٹاوں سے آسمان سر پر اٹھا دیا جاتا ھے۔۔۔
مگر جان بوجھ کر۔۔۔کروسیڈ وار۔۔۔کے علمبردار نے حاملین قرآن ذبح کر ڈالے۔۔۔
مگر ان کی زبان پر لگے تالے کبھی نہ کھل پائیں گے۔۔۔
ھم سمجھتے ھیں کہ تم کس کے پیرول پر ھو۔۔۔
سو تمھیں بھونکنے کا کہا جاتا ھے تو گز بھر زبانیں نکال کر غوغاشیطانی سے سر پر آسمان اٹھالیتے ھو۔۔۔
اب تمھاری موم بتیاں گل ہیں۔۔۔مست شیطان بنے بیٹھے ھو۔۔۔
لعنت ھو تمھارے گھٹیا افکار۔۔۔اور رذیل کردار پر۔۔۔
آج غم سے میرا کلیجہ پھٹ رھا ھے۔۔۔
کب تک آخر کب تک یہ امت یوں کٹے پھٹے بدن اور گوشت کے لوتھڑے اٹھاتی رہے گی۔۔۔؟؟
کب تک ھم خون کے ان دریاوں میں ڈوبتے مرتے رھیں گے؟؟؟۔۔۔
میرے اپنے ہی بدبخت اور رذیل نہ ھوتے تو عالم کفر میں یہ ہمت قطعی نہ ھوتی۔۔۔
چلو کچھ دیر ھی تو ہے۔۔۔
محشر بپا ھونے کوہے۔۔۔
سیاہ رو۔۔۔اور روشن چہرے سب عیاں ھوجائیں گے۔۔۔۔
اک ذرا صبر۔۔۔!!
آج دکھ اور غم میں سخت الفاظ لکھے۔۔۔کسی اپنے کو اچھا نہ لگے تو معذرت۔۔۔باقی چور چمار اعتدال کی چادر میں منہ دابے دین دشمن شیطان۔۔۔جہاد کو کرائے کی صنف دکھانے والے نولبرل لونڈے جلتے ہیں تو جل مریں۔۔۔آج میرا دکھ حد سے سواہے۔
۔۔انتخاب۔۔
غلطی کا خوف
پروفیسر صاحب کلاس میں داخل ہوئے اور پوری کلاس پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ۔ حسب معمول کلاس کی اگلی نشستوں پر پوری کلاس کی " کریم " بیٹھی تھی ۔ جن کے پاس ان کی اسٹیشنری سے لے کر استاد کے ہر سوال کا جواب تک موجود تھا ۔ جبکہ پچھلی نشستوں پر وہی نوجوان تھے جو شاید خانہ پری کے لئیے کلاس میں موجود تھے ۔ کم و بیش پیچھے بیٹھے تمام ہی طلبہ کسی نہ کسی پیپر میں سپلی کا " فیض " پاچکے تھے ۔ پروفیسر صاحب مسکرائے اور آگے بیٹھے طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا "پیچھے مڑ کر دیکھو کون بیٹھا ہے ؟ " ۔ اگلی نشستوں پر براجمان طلبہ و طالبات نے حیرت اور تچسس سے پیچھے دیکھا اور ہنسنے لگے ۔ پچھلی نشستوں پر موجود طلبہ کے لئیے ویسے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ ہر ٹیچر کو اپنے لیکچر کے دوران ویسے بھی ان کی عزت افزائی کرنی ہی ہوتی ہے ۔ پروفیسر صاحب کی آواز کلاس میں دوبارہ گونجی ۔ وہ پھر آگے والوں سے مخاطب تھے ۔ " دوبارہ پیچھے والوں کو دیکھو ! "۔ آگے بیٹھے طلبہ کی حیرت اب پریشانی میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھی ۔ ابھی پوری کلاس حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے جذبات اور تاثرات سے باہر بھی نہ آسکی تھی کہ پروفیسر صاحب نے تیسری دفعہ اپنی بات دہرائی ۔ اب کی بار آگے بیٹھے کلاس میں سب سے زیادہ جی – پی – اے لینے والے لڑکے نے جھنجلا کر کہا " سر ! اس سب کا کیا مطلب ہے ؟ "۔ پروفیسر صاحب مسکرائے اپنا چشمہ اتارا اور گویا ہوئے ۔ ان پیچھے بیٹھے " سپلی زدہ " نالائق اور نکمے لوگوں کی شکلیں اور نام اچھی طرح یاد کرلو ، ذہن میں بٹھا لو ۔ کیونکہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد تمام جی – پی – اے ہولڈرز نے ان ہی کے پاس نوکریاں کرنی ہیں ۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے کہ آپ چاہ کر بھی جس کا انکار نہیں کرسکتے ہیں ۔ آپ سن کر حیران رہ جائینگے کہ دنیا کا 90 فیصد کاروبار اور معیشت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور جنھوں نے اس دنیا کے 90 فیصد لوگوں کو نوکریاں دے رکھی ہیں ان کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھوں نے اپنی ڈگریاں تک مکمل نہیں کیں ۔ جو اپنے کالجز تک سے نکال دئیے گئے لیکن پھر کمال کرگئے ۔ میں ایک صاحب کے بارے میں جانتا ہوں جو اسکول کی دیوار پھلانگ کر بریک میں ہی بھاگ جایا کرتے تھے ۔ وہ اسوقت چار فیکٹریوں کے مالک ہیں اور بقول ان کے میری کلاس کے پوزیشن ہولڈرز تک میرے پاس نوکری کرتے ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام فطرت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالی نے سیکھنے کا کوئی عمل غلطی کے بغیر نہیں رکھا ہے ۔ اگر آپ کچھ نیا کرنا یا سیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو خود سے تجربہ کرنا پڑیگا ۔ اس تجربے...
باڈی لینگویج۔خاموش اظہار کا مستند فن
بچپن کے علم کو پتھر کی لکیر سے تعبیر کیا جا تا ہے۔بچپن میں دینی تعلیم کی غرض سے محلے کی مسجد کو بھیجا جا تا تھا جہا ں نہ صرف ما ثورہ دعاؤں،منتخب قرآنی آیا ت و سورتوں کا حفظ کروایا جا تاتھابلکہ زندگی گزارنے کا قرینہ بھی اسا تذہ اکرام سکھایا کر تے تھے۔بچپن میں مسجد میں دینی تعلیم کے دوران مولوی صاحب نے بتا یا کہ اللہ کے حضور روز محشر جب بندوں کو پیش کیا جا ئے گا تو اللہ بندے کی زبان پر مہر ثبت کر دیں گے اور اس کے اعضاء اور جوارح اس کی گواہی دیں گے کہ اس نے کیا کیا گناہ کیئے ہیں۔ گویا جسم کے ہر روئیں کو زبان عطاکر دی جا ئے گی ۔یہ بات ذہن میں اس طرح پیوست ہو گئی کہ اللہ کا جلال و قہر اور اس کی کبریا ئی بچپن میں جیسے نقش کر دی گئی تھی اس میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ابتداَ یہ با ت سمجھ میں نہیں آ تی تھی کہ اعضاء و جوارح کس طرح سے با ت کر یں گے اللہ رب العزت تو ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شئے اس کے قبضے قدرت میں ہے ۔لیکن عمر کے سا تھ کسی قدر علم سے آگہی پیدا ہوئی اور عمرانیات و نفسیاتی علوم کے مطالعہ کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ صرف زبان ہی گفتگو نہیں کر تی ہے بلکہ انسانی جسم بھی خاموش گفتگو انجام دیتا ہے۔اور جسم کی یہ گفتگو اتنی پر اثر ہو تی ہے کہ اسی گفتگو پر زبانی گفتگو اپنی تا ثیر بر قرار رکھتی ہے یا اپنا وقار گنوا بیٹھتی ہے۔ انسانی زندگی میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جہا ں وہ ایک لفظ زبان سے ادا کیئے بغیر اپنے جسم کے رویوں اور برتاؤ سے اپنا پیغام ترسیل کر دیتا ہے ان رویوں اور بر تا ؤ سے لوگ اندازہ قائم کر لیتے ہیں کہ وہ کیا کہنا اور کر نا چا ہتا ہے۔زبان انسانوں کے باہمی رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی فکر اور تخیلات کی تر سیل کا کام انجام دیتے ہیں پیغام کی ترسیل میں زبان کے ساتھ لہجہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لہجہ دراصل الفاظ کی تشریح اور ترجمانی کا کا م انجام دیتا ہے یہ اہم نہیں ہو تا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ یہ اہم ہو تا ہے کہ آپ کا لہجہ کیا کہہ رہا ہے۔لہجہ بھی زبان کا محتاج ہو تا ہے لیکن صرف ایک ایسی زبان ہے جو الفاظ و لہجہ کی محتاج نہیں ہے اور اسے باڈی لینگویج (غیر لفظی زبان)،خاموش زبان یا جسمانی اظہار کے نام سے معنون کیا جا تا ہے۔
عالمی سطح پر بیشمار زبانیں بولی اور سمجھی جا تی ہیں جن میں سب سے زیادہ بولی جا نے والی مینڈیرن (Mandarin) زبان سرفہرست ہے اس کے بعد ہسپانوی اور پھر انگریزی کا نمبر آتا ہے۔ہمارے ملک ہندوستان میں بھی کئی بولیا ں اور زبانیں رائج ہیں۔ان تما م زبانوں کے با وجود دنیا بھر میں صرف...
طنز و مزاح
اُف یہ بیویاں
عورت ٹیڑھی پسلی کی وہ تخلیق ہے کہ ایک بار بیوی بن جائے تو پھر ٹیڑھے سے ٹیڑھے مرد کو بھی یک جنبش انگلی ایک ہی پاؤں پہ وہ ناچ نچواتی ہے کہ شوہر نامدارکے تمام کس بل نکال دیتی ہے۔اور مرد بے چارہ جو قبل از شادی کسی کو پلے نہیں باندھتا تھا اب بیوی کے پلو سے ایسے بندھا رہتا ہے جیسے اونٹ کے گلے میں بلی اور بلی بھی وہ کی جو بہت سے بلوں میں اکیلی گھری ہوئی ہو جیسے رضیہ غندوں میں اور دور کھڑا ایک خاوند لاچارگی و نحیف آوازمیں کہہ رہا ہو کہ :شیر بن شیر؛
بیوی آ پکا وہ قانونی حق ہے جسے آپ سو(۱۰۰)دو سو(۲۰۰) افراد کی موجودگی میں قبولیت ثلاثہ کے ساتھ بخوشی حق قبولی میں لیتے ہیں۔بعد از شادی بعدین دو سو دن شادی مرگ ہو بھی جائے تو یقین مانیں آپ دنیا کے خوش قسمت ترین خاوند خیال کئے جائیں گے ہو سکتا ہے آپ کو :عائلی شہید: کے اعلی رتبے پر خیال کیا جائے۔
بیوی میں کوئی اور خوبی ہو نہ ہوایک خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ یہ جب چاہے کوئی سا بھی روپ دھار سکتی ہے۔جب چاہے گرگٹ بن کے کوئی سا بھی رنگ بدل لے۔رنگ بدلنے کے لئے خاوند،سسرال،یا میکہ کہیں سے بھی بیوی کو اجازت نامہ درکار نہیں ہوتا بلکہ یہ پہلے سے ہی :بیوی نامہ:میں ڈیٹا اسٹور میں پڑا ہوتا ہے۔بس یہ بیوی پر منحصر ہے کہ ذاتی منشا و مدعا کے مطابق کب ،کونسا روپ دھار کر خاوند،ساس،نند،اوردیورانی کو بیوقوف بنانا ہے۔یعنی گھر میں دھونے والے برتنوں کی کثرت ہو تو کثرت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لئے بھی بیوی کے سر میں درد نکل سکتاہے،سسرالی مہمانوں کی آمد آمد ہو تو :خاتون خانہُ:گندے دوپٹے سے سر باندھ کر بوڑھی :دائیہ
؛کی وضع اپنا سکتی ہے۔اور اگرمیکہ والوں سے کوئی دور پار کے رشتہ دار بھی آ جائیں تو :کپتی بیوی: کے غلاف سے دھارمک ،بی بی اور موٗدب بیوی کہاں سے عود کر آ جائے گی کہ پورا سسرال انگشت بدنداں،حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ :ہیں: ایسا روپ تو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔البتہ تنخواہ کا دن وا حد دن ہوتا ہے جس میں ایک دم کپتی بیوی گل اندام محبوبہ کی وضع قطع اپنا لے گی کہ :سکے خاوند: کو یقین نہیں آتا کہ وہ ذاتی بیوی سے مخاطب ہے یا کسی اور کی بیوی کے سامنے کھڑا ہے۔بیوی کے یہ ناز و نخرے اس وقت تک چلتے ہیں تا وقتیکہ شوہر کا والٹ اور پاکٹ خالی نہ ہو جائے۔
ایام ماہ آ خرجب شوہر کا والٹ اور پاکٹ خالی ہو جاتے ہیں تو فوری طور پہ :گجی ماں:جیسے ٹکا کے بے عزتی کرتی ہے جیسے بچپن میں رات تاخیر سے وآنے پہ اماں کرتی تھیں۔بعض اوقات تو اماں سے بھی دو ہاتھ آگے ہی رہتی ہے۔
بیوی کا پاور ھاؤس اسکا میکہ ہوتا ہے جبکہ خاوند کے لیے یہ جگہ بارگاہ ادب سے کم نہیں۔ ہر اس شخص کو کسھیانی مسکراہٹ اور عزت و مقام بخشتے ہوئے جھک کر سلام اور گلے لگانا پڑتا ہے جو آر...
انگریزی،انگریزنی اور ہم پاکستانی
انگریز برصغیر سے جاتے ہوئے اپنی اپنی انگریزنیوں کو تو ساتھ لے گئے۔تاہم انگریزی ہمارے واسطے بطور عذاب اور امتحان کے چھوڑ گئے۔ہم ٹھہرے باوقار پاکستانی،اپنی چائے میں مکھی بھی پڑ جائے تو اسے مکمل نچوڑ کر اور کبھی کبھار چوس کر چائے بدر کرتے ہوئے کہیں دور پھینک کر بقیہ چائے یہ کہتے ہوئے پی لیتے ہیں کہ حلال کمائی کی ہے، مگر کسی کی جھوٹی چائے کو تو ہاتھ لگانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔بھلا تصور کریں کہ انگریز کی چھوڑی ہوئی انگریزی کو ہم کیسے ہاتھ لگائیں گے۔ہاں اگر انگریزی کی جگہ انگریزنی ہو تو ہاتھ اور منہ لگانے کو ہم قومی فریضہ خیال کریں گے۔پھر بھی ہم یارانِ مہر و محبت ،انگریزی کو بھی صیغہ مونث خیال کرتے ہوئے اس امید سے برداشت کر رہے ہیں کہ اک روز تو آئیگی آتے آتے’’پر کتھوں‘‘نہ انگریزی اور نہ ہی انگریزنی آتی ہے،مایوسی کہیں کفر تک نہ لے جائے اور مذکور ان دو صنف اور صنفِ نازک سے بدلہ لینا مقصود ہو تو رختِ سفر باندھیے گوروں کے دیس کا اور ایک عدد گوری سے شادی کر وا کے خوب اپنی تشنگی بجھائیے۔جیسے 90 کی دہائی میں میرا ایک دوست اس عزمِ صمیم سے ولایت پڑھنے گیا تھا کہ وہاں جا کر انگریزی اور انگریزنیوں سے گن گن کر بدلے لوں گا۔اور وہ اپنی زبان کا پکا نکلا کہ گن گن کر اس نے سات آٹھ انگریزنیوں سے شادیاں کی ،گن گن کر پندرہ بیس مکس کراپ( mix crop ) قسم کے بچے پیدا کئے جنہوں نے بڑھاپے میں ایک ایک کر کے چھوڑ دیا اور اب محترم سوچ رہے ہیں کہ ’’اپنے اور اپنا پاکستان زندہ باد‘‘۔مگر یہ سب ہر بندے کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ انگریزی اور انگریزنی کو ایک ساتھ ہاتھ ڈال لے۔اور اگر یہ دونوں ایک ساتھ کہیں ہمارے ہتھے چڑھ جائیں تو پھر ہم ان دونوں کی وہ ’’ماں بہن‘‘ ایک کرتے ہیں کہ خدا پناہ۔میرا ایک دوست انگریزی کے ساتھ وہ ’’کتے خوانی‘‘ کرتا ہے کہ گورے ان کی انگریزی اگر پڑھ لیں تو انگریزنیوں کو بچوں سمیت موصوف سے ایسے چھپاتے پھریں جیسے بلی اپنے بچوں کو منہ میں دبائے سات گھروں میں لئے پھرتی ہو۔میری نظر سے ان کا لکھا ہوا ایک پیرا گراف گزرا ۔اس پیراگراف پڑھنے کے بعد جو میرے احساسات تھے میں چاہتا ہوں کی قارئین کی نذر کروں،پیرا پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے preposition کو دھوبی پلڑا مار کر اور مجھے کرنٹ لگا کر زمیں پر دے مارا ہو،preposition کے بے ہنگم استعمال سے میں سمجھا ،کہ ہو سکتا ہے کہ میں ہی ذہنی طور پہ تیا ر نہ تھا ،ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ use of tense کو بھی انہوں نے اتنی tention میں رکھا ہوا تھا کہ میں خود tense ہو گیا کہ الہی ماجرا کیا ہے،بندہ ماسٹر ڈگری کر کے ماسٹر لگا ہوا ہے تو پھر انگریزی میں اتنا ماسٹر کیوں نہیں کہ ایک جملہ ہی ٹھیک سے لکھ سکتا ہو۔اب دیکھئے ذرا کہ ’’میں کہتا ہوں‘‘ کی انگریزی me told اور ’’تم آجانا‘‘ کی they come کی...
ہم تو گم راہ جوانی کے مزوں پر ہیں
ایک سلپ دینا ، انہوں نے میٹھے اور دھیمے سے لہجے میں کہا۔ میں نے سر اٹھایا تو ایک چالیس پینتالیس سالہ خاتون استقبالیہ کے کاؤنٹر پر میرے سامنے کھڑی تھیں۔ جی آنٹی؟’’ اپنی ایج بتا دیجئے گا پلیز‘‘۔ بس یہ کہنا تھا کہ وہ تو آپے سے ہی باہر آگئیں۔ ایسے لگا جیسے میں نے ان سے عمر نہ پوچھی ہو بلکہ بھڑوں کے چتھے میں ہاتھ ڈال دیا ہویا کوئی ننگی سی گالی دے دی ہو۔ پہلے تو انہوں نے خوب ناک سکیڑی اور پھر غصے سے پھنکارتے ہوئے بولیں : ’’او ہیلو!! کہاں سے آنٹی لگتی ہوں ہاں؟ میں نے ان کے بپھرتے انداز سے ڈرتے ہوئے پیشہ ورانہ معذرت کی اور کہا: سوری باجی غلطی ہو گئی۔ آپ اپنی عمر بتا دیں تا کہ میں سلپ بنا دوں ۔ انہوں نے غصے سے لبریز لہجے میں بڑبڑاتے، منمناتے ہوئے پچیس سال بتائی اور میں سوچنے لگاکہ دِکھتی توچالیس کی ہیں اور بتاتی پچیس ہیں ۔ پھر میں سوچنے لگاممکن ہے سات ادوار میں سے کوئی دور ہو۔
مارک ٹوئن نے کسی سے پوچھا تھا:’’کیا آپ عورت کی زندگی کے سات ادوار سے واقف ہیں؟‘‘تو جواب ملا: نہیں واقف،کون سے ہیں؟ مارک ٹوئن نے جواب دیا: ’’ بچپن، لڑکپن، جوانی، جوانی، جوانی اور جوانی اور پھر جوانی۔ویسے بھی عمر کے معاملے میں عورتوں کا ہمیشہ سے یہ رویہ رہا ہے کہ جب وہ چھوٹی ہوں تو چاہتی ہیں کہ انہیں بڑا سمجھا جائے اور جب بڑی عمر کی ہوتی ہیں تو چاہتی ہیں کہ انہیں چھوٹا سمجھا جائے۔ خیر ! میں نے سلپ بنا کے دی تو بلا ٹلی اور میں نے سکھ کا سانس لیا کیوں کہ جب تک وہ یہاں کھڑی تھیں مجھے ہی گھورے جارہی تھیں۔ جیسے نظروں ہی نظروں میں ہڑپ کر جانا چاہتی ہوں۔ شاید انہیں لگ رہا تھا کہ میں نے راز سے پردہ اٹھا لیا۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بیل بجی ، جو اشارہ تھا خطرے کا، کہ ڈاکٹر صاحب بلا رہے ہیں۔چشمہ ناک پے اوپر کیا جو ذرا سرک کر چونچ پر آگیا تھا، کپڑے وپڑے ٹھیک کیے اورجا پہنچے ڈاکٹر صاحب کے کمرہ میں اور ہاتھ باندھ کر مؤدبانہ انداز سے کھڑے ہوئے اور عرض کیا : جی سر؟
ڈاکٹر صاحب نے اول تو چشمے کے اوپر سے مجھے گھورتے ہوئے سر تا پا جائزہ لیا پھر بولے: بھئی عبدل!آپ عمر تو ٹھیک لکھا کریں ۔ آپ جانتے بھی ہیں کہ میں مریض کو اس کی عمر کے حساب سے میڈسین دیتا ہوں ۔ یہ دیکھیں اب ، آپ نے فورٹی پلس کی سلپ پر عمر پچیس سال لکھی ہے جبکہ آئی ڈی کارڈ کے حساب سے چالیس، اکتالیس بنتی ہے۔میں نے سر جھکالیا اور رسماً معذرت کی، وہ خاتو ن وہیں پر سانس کھینچے بیٹھی مجھے ہی گھور رہی تھیں۔جان چھوٹی سو لاکھوں پائے۔ میں سوچ رہا تھا، پتا نہیں خواتین اپنی عمر چھپاتی کیوں ہیں؟ شائد احساس کمتری کی وجہ سے یا کم عمر نظر آنے کے لیے؛ کہتی ہوں گی انہیں جوان سمجھا جائے۔ ویسے بعض مرد بھی اپنی عمر چھپاتے ہیں ۔ مرد کی...
روحانی ریمانڈ
صاحبو، مجھ سے اگر کوئی یہ پوچھے کہ انسانی اعصاب کیلیئے سب سے کڑا وقت کونسا ہوتا ہے تو میں بلا تردد عرض کروں گا کہ "عین اس وقت ، کہ جب کوئی لکھنے پڑھنے والا فرد نصف شب کے بعد کسی بیتاب قوال سے بہت کم فاصلے پہ موجود ہو" ، مجھے یقین ہے کہ کسی دوسرے فرد کو میرے اس بیان کی فکرانگیزی اس وقت تک سمجھ آہی نہیں سکتی کہ جب تک کہ وہ خود کبھی اس کڑی آزمائش سے دوچار نہ ہوا ہو اور رات کے پرسکون لمحات میں اسکی سماعت ، اچانک کسی بپھرے ہوئے قوال کے ہتھے نہ چڑھ چکی ہو۔۔۔ میری یہ بپتا پرانی نہیں ابھی گزشتہ شب ہی کی ہے کہ جب میرے گھر کے عین سامنے اک مست قوال محفل سماع کے نام پہ مائیکروفون پہ کان پھٹنے اور پو پھٹنے تک نجانے کیا کیا کرنے پہ تلا رہا،،، اور میں گویا شب بھر 'روحانی ریمانڈ' پہ رہا،،، ابتداء میں تو میں نے بہت برداشت سے کام لیا اور بہت دیر تک ضبط نفس کے طریقے آزماتا رہا لیکن کانوں پہ امنڈتی بانگ درا جب اسپیکروں کی ہنرمندی سے چنگھاڑتی ضرب کلیمی بن گئی تو خوار و مضطرب ہوکر خود بھی پرعقیدت سامع بن کر 'وقوعہ' پہ جاپہنچا۔
دیکھتا ہوں کہ درمیان میں بیٹھا جو شخص متواتر گردن ہلارہا ہے اور زور زور سے ہاتھ چلا رہا ہے وہی اس 'مقدس ورکشاپ' کا استاد ہے اور اس نے کئی 'چھوٹے' یعنی اپرنٹس قوال آہ وفغاں کیلیئے دائیں بائیں ساتھ بٹھا رکھے ہیں جو کہ نہایت متناسب انداز میں گردن مٹکانے کیساتھ ساتھ استادانہ لے کی آنچ بڑھانے کیلیئے برابر سے زوردار تالیاں بھی پٹخارتے جاتے ہیں اور تالیاں بھی کیا گویا ایک ہتھیلی سے دوسری کو اور دوسری سے پہلی کو کس کس کر چانٹے لگا رہے ہیں،،، ہمراہ ایک نائب قوال بھی ہے کہ باربار بوکھلا کر اچانک اچانک واویلا مچانے کیلیئے مخصوص ہے،، اس کا دوسرا کام پوری چوکسی سے اپنے سر کو 'استاد' کی تالیوں کے بیچ آکر چپاتی بننے سے بچانا ہے کیونکہ وہ قوال کے بالکل نزدیک بیٹھا ہے اور ہر لمحے گمان ہوتا ہے کہ اس قربت کی سزا اسے آج مل کر رہے گی،،، طبلہ ٹھنک رہا ہے اور طبلہ نوازاسی سے ہم آہنگ کرکے اپنی گردن اور دیدے دونوں برابر سے مٹکارہا ہے،،، ایک لاغر و فاضل سا بچہ بھی وہیں ساتھ دبکا بیٹھا ہے جس کا کام سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وقفے وقفے سے چونک کے سیٹی جیسی باریک اور چبھتی ہوئی آواز میں چیخیتی ہوئی ایں ایں یا ریں ریں کرنے کی کوششیں جاری رکھے اور اسٹیج پہ کسی جونیئر قوال کو نیند کی جھپکی لینے نہ دے ، حاضرین کو جگائے رکھنے کا کام البتہ اسی چھٹے ہوئے قول نے مستقل اپنے ذمے لے رکھا ہے۔۔۔
ساز و صدا کی اسی ہڑبونگ میں دیکھتے ہی دیکھتے میرے سامنے بیٹھے دو افراد دفعتاً ہڑبڑا کر اٹھے اور اسٹیج کی جانب بڑھے اور،،،، اسٹیج تک پہنچنے سے پہلے ان میں سے ایک نے جیب میں ہاتھ ڈالا جس سے میں نے...
لائن پر آؤ یا لائن بناؤ
الن کلن کی باتیں
’’ہمارے یہاں عقلمندوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔‘‘
’’جب ہزار ملتے ہیں تو پھر ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’اسی لئے ڈھونڈنے کی زحمت نہیں کی جاتی بلکہ جو مل جائے اسی سے کام چلا لیا جاتا ہے۔‘‘
’’ایسا کیا ہوگیا، کچھ بتاؤ گے بھی یا پہیلیاں ہی بھجواتے رہو گے؟‘‘
’’اب دیکھو ناں ہمارے ملک میں جو عقلمند ملتے ہیں وہ عوام کے خادم نہیں بلکہ عوام کے حاکم ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ عقلمندی کے ایسے جوہر دکھاتے ہیں کہ جس سے عوام کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’ ایسا کیا ہوگیا جو تم ایسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو؟‘‘
وارداتیں ہورہی ہیں یا ہونے کا خطرہ ہے تو ڈبل سواری پر پابندی لگا دو۔ موبائل سے ریکی کی جاتی ہے تو موبائل کا نیٹ ورک بند کردو۔ بجلی کی ادائیگی کسی علاقے میں کم ہورہی ہے تو وہاں پر لوڈ شیڈنگ کرو۔ آٹا مہنگا ہے تو ڈبل روٹی کھا لو۔ ‘‘
’’واقعی یہ بات تو تم نے ٹھیک کہی، لیکن اصل بات کیا ہے؟ وہ بتاؤ، یہ پرانی باتیں ہیں۔‘‘
’’عوام کے نصیب میں دربدر کی ٹھوکریں کھانا لکھا ہے۔ کبھی یوٹیلٹی بلوں کے لئے لائن میں لگایا جاتا ہے، کہیں گیس بھروانے کی لائن میں لگایا گیا، کہیں پیٹرول نایاب کرکے لائن میں لگایا گیا، کہیں سم رجسٹریشن کے نام پر لائن میں لگایا گیا، کہیں ووٹ ڈالنے کے لئے لائن میں لگایا، کہیں لائسنس کے لئے لائن میں لگایا اور کہیں شناختی کارڈ کے حصول کے لیے نادرا کی لائن میں لگایا۔‘‘
’’جو قوم لائن پر نہیں آتی پھر اسے اسی طرح لائن میں لگایا جاتا ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ ابھی کون سی لائن لگنے والی ہے؟‘‘
’’سنا ہے چھ ماہ میں شناختی کارڈ کی دوبارہ تصدیق ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک سنا ہے۔‘‘
’’مطلب ایک بار پھر دوبارہ سے لائن میں لگ کر تصدیق کرنی ہوگی؟‘‘
’’اب تک تو آپ کو لائن میں لگنے کی عادت ہوجانی چاہیئے تھی۔ لیکن چونکہ یہ قوم لائن میں لگنے کی عادی نہیں اس لیے یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔‘‘
’’اب آپ کیا چاہتے ہو بغیر لائن کے تمہارا کام ہوجائے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ زرداری کے بیٹے بلاول تو نہیں ہیں یا آپ شریف خاندان سے تو تعلق نہیں رکھتے جو آپ بغیر لائن میں لگے اپنا کام کروا سکیں۔‘‘
’’تو پھر ایک کام کیوں نہیں کرتے۔ سب کو لائن میں لگا کر چار چار جوتے کیوں نہیں لگائے جاتے تاکہ سب کی عقل ٹھکانے آجائے۔‘‘
’’ایسی ذلت بھلا کون پسند کرے گا؟‘‘
’’ذلت عوام کا مقدر ہے کیونکہ ان کے پاس شعور نہیں۔ انہوں نے اس کو اپنا نصیب سمجھ لیا ہے اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ عقلمند ہم پر کیوں حکومت کررہے ہیں جو ہمارے ووٹ لے کرآتے ہیں اور ہمارے ہی پیسوں پر پلتے ہیں اور ہمارے درمیان اس طرح وی آئی پی انداز میں نکلتے ہیں، جیسے یہ انسان ہیں اور ہم سب گدھے۔ ان کی جان کی قیمت ہے اور ہم چیونٹیاں ہیں جس کے جی میں ا?ئے پاؤں تلے روند جائے۔‘‘
’’تو تمہارے خیال میں عوام کیا کرسکتی ہے؟‘‘
’’کہہ تو رہا ہوں چار جوتے سب کو...